حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے شہر خوئی میں مدرسہ علمیہ الزہراء سلام اللہ علیہا کی استاد محترمہ وحیده محمدلو نے "عورت اور خاندان" کے موضوع پر سلسلہ وار مباحث کی دوسری نشست میں خطاب کرتے ہوئے کہا: مرد اور عورت کے درمیان اصلی فرق کا سبب خداوندعالم ہی جانتا ہے لیکن ابتدا میں ہمیں اس بات کو قبول کرنا ہوگا کہ خداوند متعال نے مرد اور عورت کے درمیان کچھ فرق ان کی پیدائش سے ہی لکھے ہیں اور ان کے وجود کا حصہ ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: اس میں مرد کا حصہ عورت کی نسبت دو برابر ہونا ہر مورد اور ہر جگہ نہیں ہے بلکہ شریعت اور قانون میں ایسے موارد بھی ہیں کہ جہاں مرد اور عورت کی ارث میں کوئی فرق نہیں ہیں مثلا میت کے ماں باپ دونوں کی ارث مساوی ہے اور دونوں کے سہم میں کوئی فرق نہیں ہے۔
مدرسہ علمیہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی اس استاد نے کہا: ایک روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال ہوا کہ "کیوں عورت کا ارث میں ایک سہم ہے جبکہ وہ مرد کی نسبت ناتوان اور کمزور ہے اور اس کی زیادہ حمایت ہونی چاہئے لیکن اس کے برعکس مرد جسمانی طور پر مضبوط ہونے کے باوجود دو سہم کا مالک بنتا ہے؟ تو امام علیہ السلام نے اس کے سوال کے جواب میں فرمایا: "اس لیے کہ مرد کے کندھوں پر (خرچ کے لحاظ سے) زیادہ اور سنگین ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں"۔
انہوں نے کہا: ایک اور روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا "مرد کا عورت کو مہریہ دینا عورت کی میراث کی کمی کو پورا کرنے کے لئے ہے" اور حقیقت میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ مرد اور عورت کی ارث میں فرق کی وجہ یہ ہے کہ عورت کا نفقہ مرد پر ہوتا ہے اور اسے اپنے مخارج کے ساتھ ساتھ والدین، عورت (بیوی) اور بچوں کے اخراجات بھی برداشت کرنے ہوتے ہیں۔
محترمہ محمد لو نے کہا: یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ارث اور مہریہ سے جو کچھ عورت کے حصے میں آتا ہے وہ اس کی بچت ہوتی ہے جبکہ مرد کا حصہ اپنے بیوی اور بچوں کے مخارج میں خرچ ہوتا ہے اور شریعت میں مرد کے کندھوں پر ایسی ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں جن کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اموال کو خرچ کرے۔
مدرسہ علمیہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی اس استاد نے کہا: اسلام میں بابِ ارث میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ درحقیقت عورت کے حق میں ایک انقلاب ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں میت کی بیویاں اور بچیاں ارث سے محروم ہوا کرتی تھیں اور میت کی تمام میراث اس کے لڑکوں کو منتقل ہوجاتی تھی لیکن اسلام نے جاہلیت کے قوانین کو باطل کر دیا اور عورت کو میت کے وارثوں کے زمرے میں قرار دیتے ہوئے اسے میت کے اموال کا مالک قرار دیا اور اب گزشتہ دو صدیوں سے یورپ میں بھی عورت کو میراث میں حق دیا جانے لگا ہے۔